SIZE
1 / 9

" بس کر دے علی احمد کے ابا ، بس کر دے ... کیا جان لے کر چھوڑے گا کیا ."

" میں ٹانگیں توڑ ڈالوں گا اس الو کے پٹھے کی ." مجھے بچاتے بچاتے اماں اور چینو کو بھی خاصی مار پڑ گئی تھی .

" ابا گندا ، ابا گندا ." میں نے ابا کے گھر سے باہر نکلتے ہی جی بھر کر ابا کو برا بھلا کہا .

چینو کو چپڑیں ماریں اور تو اور اماں کو بھی دانتوں سے کاٹ لیا . ابا نے مار مار کر مجھے نیلو نیل کر دیا تھا . اماں ہلدی اور گھی والا گرم دودھ مجھے پلا رہی تھیں. میں آنسو پونچھتا مسلسل بکواس کر رہا تھا .ابا نے مجھے اس سے قبل کبھی اس بیدردی سے آہی مارا تھا . گودوں میں اٹھا کر گھومنے والی ٹائپ تو ابے کی کبھی بھی نہیں تھی . لیکن وہ ایک ادھ دبکے سی آگے بڑھنے والا بھی نہیں تھا . لیکن آج اس نے نہ صرف مجھے کبوتر اڑاتے دیکھ لیا تھا بلکہ میرے ہاتھ میں موجود سیگریٹ بھی دیکھ لی تھی . اوپر سے ماسٹر صاحب سے رزلٹ بھی وصولا تھا . میں سارے ہی مضمونون میں فیل تھا . پرائمری پاس میرا ابا ' مجھے پڑھانے کا بڑا شوقین تھا .

" اماں ! ابا کو بتا دے اگر اس نے مجھ پر ہاتھ چکا تو میں گھر سے بھاگ جاؤں گا ." میں نے سوچا بھڑک مارنی ہے تو چھوٹی نہیں مارنی چاہیے .

" ہائے ہائے ' یہ کیسی بات کی تو نے احمد علی !" اماں تو یہ بات سن کر ہی مرنے والی ہو گئیں تھیں .

خیر جیسے بھی ہوا ' اس نے ابے تک میری دھمکی منتقل کی . اس کے بعد ابے نے دوبارہ اس پر ہاتھ اٹھانے کی ہمت نہیں کی . اب میں کبوتر بھی اڑاتا اور سکول بھی نہ جاتا . مگر ابے نے پھر بھی مجھ پر ہاتھ نہ اٹھایا .

" اماں ! ابا کو نہ ہوا کسی چیز کا شوق ؟" میں نے کبوتر کو منقی کھلاتے ہوئے بڑی ترنگ سے پوچھا .

" ادھر آ میں بتاؤں تجھے . اپنی اماں کا کھیڑا چھڈ." ابا نے احاطے کی طرف آتے ہوئے میری بات سن لی تھی .

" تیرے جیسے گھٹیا کبوتر بازوں والے شوق نہیں ہوئے کبھی تیرے پیو کو ." ابا نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا .

اکڑ تو ہمیشہ ہی ابے کی بہت تھی ." شیخی خورا نہ ہو تو ." میں نے دل ہی دل میں کہا .

" مجھے شوق تھا پنج کلیانی کا ہمیشہ سے ."